ساس بہو کا جھگڑا تو اس بات پر بھی ہوجاتا ہے کہ ساس کہتی ہے: ’’بہو تم آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہو اور بہو کہتی ہے کھانا کھاتے ہوئے آپ کا منہ کیوں ہلتا ہے‘‘ اس لیے ان کی باتوں کو نظرانداز کرنا سیکھیں
سیدہ عالیہ افزاء بخاری‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ
ہائے کتنا ترس آرہا ہے بیچاری پر سارا دن کام میں لگتی رہتی ہے‘ شوہر کی اتنی خدمت کرتی ہے ساس سسر کی خدمت گزار ہے‘ بچوں کو سنبھالتی ہے‘ پھر بھی سب سے جھڑکیاں کھاتی ہے‘ کتنے ظالم ہیں سب۔۔۔۔ کیا ان کی اپنی بیٹیاں نہیں ہیں۔۔۔؟؟؟ بیٹیوں والے تو بہوؤں سے بھی اچھا سلوک کرتے ہیں۔۔۔ توبہ ہے! قیامت کیوں نہیں آجاتی۔۔۔
اور دوسری طرف رخ کچھ یوں ہے ارے بہو تو برائی ہے وہ تو ساس سے بُرا رویہ رکھے تو بات سمجھ آتی ہے اور یہ بیٹا‘ یہ تو سگی اولاد ہے اُسے تو خیال رکھنا چاہیے۔۔۔ مانا بھابی کو نندیں بوجھ لگتی ہیں‘ پر یہ تو شوہر کی سگی بہنیں ہیں‘ وہ تو بہنوں سے نفرت نہ کرے‘ ہائے۔۔۔!!! یہ بیوی چیز ہی ایسی ہے۔ شوہر کو اُس کے اپنوں سے دور کردیتی ہے اور جو اس کے اپنے ہیں خود کو تو پیارے ہوتے ہی ہیں‘ شوہر کے بھی دلارے بنا دیتی ہے۔ ہائے توبہ۔۔۔!!! ہم ٹی وی پر ڈراموں کی صورت میں ایسی داستانیں روزانہ دیکھتے اور سنتے ہیں اور بہت سارے رسالوں میں بھی پڑھتے ہیں لیکن اپنے گھروں میں جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ یہ تو ہمارے گھروں میں حقیقت کی صورت میں نظر آتی ہیں۔
بیٹے اور بیٹی کی شادی کردی ہے‘ اچھا مبارک ہو۔۔۔! بہت اچھا کیا اور یہی نیک اور اچھا کام بعد میں اور بہت سارے اچھے کام خراب کردیتا ہے۔ بعد میں ہم سنتے ہیں ارے۔۔۔ اگر مجھے پتہ ہوتا تو کبھی بیٹے کی شادی نہ کرتی‘ بیٹا تو بس بہو کا ہو کر رہ گیا ہے اور اس کی ساری سنتا ہے اور اسی کی طرف داری کرتا ہے‘ ہم تو جیسے جھوٹے ہیں‘ اس کی بیوی کے دشمن ہیں‘ زندگی تو عذاب بن گئی ہے اور دوسری طرف بیٹی کا کیا معاملہ ہے۔
سنیے۔۔۔!!! ساس تو آئے روز کوئی نہ کوئی بات لیکر جھگڑا ڈال کر بیٹھ جاتی ہے‘ ہرکام میں نقص نکالتی ہے‘ کھانا صحیح نہیں بنایا‘ کپڑے ڈھنگ کے پہنا کرو‘ یہ کیا کرو‘ وہ کیا کرو‘ یہ کرو وہ نہ کرو اور پھر بیٹے کے کان بھی اسی کے خلاف بھرتی ہے۔۔۔ کیا کروں۔۔۔ میں تو اُس کےرونے سن سن کر تنگ آگئی ہوں‘ بس صبر ہی کرسکتی ہوں اور کیا کروں۔۔۔!!!
یہ ہر دوسرے گھر کی داستان ہے‘ عورت ہی عورت کا سکون برباد کردیتی ہے اور رہی سہی کسر وہ مرد جو کسی کا بیٹا ہے تو کسی کا شوہر وہ پوری کردیتا ہے اگر وہی مرد ٹھیک ہو تو گھر کا سکون کبھی برباد نہیں ہوسکتا اگر وہ تابعدار بیٹا اور خیال رکھنے والا شوہر ثابت ہو‘ یہ ضروری نہیں کہ آپ کی ماں ہی قصور وار ہے یا آپ کی بیوی ہی قصوروار ہے‘ بات قصور سے ہٹ کر بھی ہوسکتی ہے۔ مثلاً سیانے کہتے ہیں ساس بہو کا جھگڑا تو اس بات پر بھی ہوجاتا ہے کہ ساس کہتی ہے: ’’بہو تم آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہو اور بہو کہتی ہے کھانا کھاتے ہوئے آپ کا منہ کیوں ہلتا ہے‘‘ اس لیے ان کی باتوں کو نظرانداز کرنا سیکھیں یا پھر دونوں کو ہی خوش رکھنا سیکھئے کیونکہ یہ گھریلو جھگڑے کوئی انہونی نہیں بلکہ ایسا ہر اُس گھر میں ہوتا ہے جس گھر کا مرد عورت کی سنتا ہے بہت کم عورتیں اچھی بہو اور اچھی ساس ثابت ہوسکتی ہیں کیونکہ یہ بہت مشکل ہے کہ بہو شوہر کو اپنوں سے جوڑنا چاہتی ہے اور ساس بیٹے کو اپنوں سے جوڑے رکھنا چاہتی ہے اور اگر مرد سب سے جُڑا رہے تو گھر جڑے رہتے ہیں اور اسے ایک بات لازماً ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اُس کے ماں باپ اس کے بہن بھائی بیوی کے میکے والوں سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں‘ ان کی خوشیاں بیوی کے میکے والوں سے زیادہ اہمیت کی حامل ہونی چاہئیں اور ماؤں کو چاہیے کہ بیٹی کی تربیت کرتے وقت یہ بات اس کے ذہن میں اچھی طرح ڈال دیں کہ جیسے تم میرے آگے زبان چلالیتی تھی‘ ساس کے آگے نہ چلانا اور شوہر کی خدمت کرنا اور اگر سسرال والوں کی کوئی بات بُری بھی لگے تو یہ سوچ کر نظرانداز کردینا کہ میں تمہاری ماں بھی تمہیں کچھ بُرا کہہ سکتی ہوں مانا کہ ساس ماں نہیں ہوتی پر تم بھی بیٹی ثابت نہیں ہوسکتی اس لیے گھر کے سکون اور ہماری خوشی کی خاطر ہر بُری بات برداشت کرجانا ہماری خصوصاً میری تربیت پر آنچ نہ آنے دینا۔
اُدھر بیٹیوں کی ماؤں کو چاہیے کہ ان کی بڑھتی ہوئی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اگر وہ آپ کو نظرانداز کررہا ہے تو اسے اس کا احساس مت کروائیں بلکہ اسے محسوس نہ ہونے دیں کہ وہ آپ کو بھول رہا ہے اور بہو کی بیٹی چاہیے نہ مانیں لیکن اس کی نادانیاں نظرانداز کردیں اور ’’ٹوکا ٹوکی‘‘ سے پرہیز کریں۔اگر آپ سب اپنے اپنےرشتوں کو نبھانا سیکھ جائیں تو یہ دنیا ہی آپ کیلئے جنت بن جائے گی کیونکہ سکون نہ تو پیسوں سے خریدا جاسکتا ہے اور نہ ہی روزانہ اچھا کھانا کھانے سے مل سکتا ہے‘ سکون تو دل کے اندر ہے‘ گھر کے اندر ہر کوئی سکون چاہتا ہے‘ چاہے دال کھانے کو ملے لیکن دل خوش ہو۔ تھوڑے کو زیادہ جانیے آج ہی سے خود کو بدلیے کہ اگر ہم خود کو بدل لیں گے تو دوسرا بھی بدل جائے گا۔ دل سے حسد‘ جلن‘ انتقام کو نکال باہر کریں اور اس کی جگہ پیار‘ محبت کو دیجئے اور جس نے آپ کے ساتھ بُرا کیا آپ اسے معاف کردیں اور ہر رشتے کو اہمیت دیجئے۔ خدارا! ایسا کیجئے کہ یہ ممکن نہیں بلکہ مشکل ہے اور مشکل کو آسان کیا جاسکتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں